* جسے بھی چاہے یہ دنیا عذاب میں رکھن *
غزل
جسے بھی چاہے یہ دنیا عذاب میں رکھنا
اسے مرے دل خانہ خراب میں رکھنا
طلوع ہوں گے کئی رنگ ہر دریچے سے
وہ ایک چہرہ حجابوں کے باب میں رکھنا
چمن میں عام ہوا اب توسرقۂ خوش بو
مرے خطوط غزل کی کتاب میں رکھنا
ہزار نام ملیں گے ورق ورق لیکن
اسی کانام مگر انتساب میں رکھنا
مجھے یہ خوف کہ سورج نکلنے والا ہے
بہت سنبھال کے شبنم گلاب میں رکھنا
بہت قلیل نہیں ہے یہ فیصلے کی گھڑی
کہ پائوں سوچ سمجھ کررکاب میں رکھنا
بہت ہی خوب ارادہ ہے یہ شکیب ایاز
کہ چاہتے وہ اردو نصاب میں رکھنا
٭٭٭
|