* مرا جسم ہے میرا چہرہ نہیں ہے *
غزل
مرا جسم ہے میرا چہرہ نہیں ہے
کہیں آئینہ بھی تو جھوٹا نہیں ہے
یہ کیا بات ہے گھر کا آنگن بھی سونا
مگر شہر میں بھی تماشا نہیں ہے
مری شخصیت سے یہ انکار کیسا
یہ پتھر نہیں ہے یہ شیشہ نہیں ہے
بہت دن سے خالی حویلی پڑی ہے
کوئی نام تختی پہ لکھتا نہیں ہے
ابھی میرے شیشے میں مئے بچ رہی ہے
ابھی ترک غم کا ارادہ نہیں ہے
ابھی روشنائی نہ کا غذپہ پھیلے
ابھی ماجرا اپنا لکھا نہیں ہے
٭٭٭
|