* یہ سرخ آگ ہر اک مثل کو جلادے گی *
غزل
یہ سرخ آگ ہر اک مثل کو جلادے گی
اور اس کے بعد عدالت مجھے سزا دے گی
اداس رات جنم دے گی اک نیا سورج
کوئی کرن تو مرے گھر کا بھی پتادے گی
یہ کم نہیں کہ مجھے عہد لازوال ملا
یہ زندگی مرے قاتل کو بھی دعا دے گی
جلا ہے گھر کسی مفلس کا یا تونگر کا
ہوا جو لوٹ کے آئے گی سب بتا دے گی
جلوس کم ہنراں اس کے دائیں بائیں ہے
بڑھا جو میں تو یہی بھیڑ راستا دے گی
٭٭٭
|