* پیاسی ہے زمیں اور گھٹا ٹوٹ رہی ہے *
غزل
پیاسی ہے زمیں اور گھٹا ٹوٹ رہی ہے
پرباندھئے، موسم، کے ہوا ٹوٹ رہی ہے
دوچار قدم ہوتو کوئی لوٹ بھی آئے
اب کس کو پکاریں کہ صدا ٹوٹ رہی ہے
وہ کون تھا جس نے کہ مری آنکھ میں جھانکا
شفاف سمندر کی ردا ٹوٹ رہی ہے
سیلاب تصور نے شرابور کیا ہے
اب بیچ کی دیوار حیا ٹوٹ رہی ہے
آنگن سے تجاوز ہوئی شہتوت کی ڈالی
اس شاخ کو اتنانہ جھکا، ٹوٹ رہی ہے
کس ملک کو آباد کریں شہر کو چھوڑیں
دنیاپہ قیامت کی بلا ٹوٹ رہی ہے
٭٭٭
|