* عروج شب ہے مجھے اس کے گھر ہی لے جائو *
غزل
عروج شب ہے مجھے اس کے گھر ہی لے جائو
وہیں پہ ٹھہرے ہے لمحہ اُدھر ہی لے جائو
کسی طرح تو اندھیرے کا بوجھ ہلکا ہو
چراغ مانگے مرا سر تو سرہی لے جائو
مسافرت میں کسے چہرہ چہرہ ڈھونڈھو ہو
اب آگئے ہو توگر وسفر ہی لے جائو
غریب شہر! تہی دست کیسے لوٹوگے
اٹھا کے سایۂ دیوار ودر ہی لے جائو
کسے ہے فرصت ہستی کہ کوئی بات سنے
حضور یار غزل کا ہنرہی لے جائو
٭٭٭
|