* کرب کی آگ میں جلتا رہا تنہا کوئی *
غزل
کرب کی آگ میں جلتا رہا تنہا کوئی
جھوم کے ابر اٹھے پھر بھی نہ برسا کوئی
شام ہوتے ہی مرے ذہن کی دیواروں پر
پھیل جاتا ہے ترے رنگ کا سایا کوئی
چشم نمناک سے پگھلے ہوئے تارے ٹوٹے
نشتر غم نے تراشا ہے اجالا کوئی
خلوت جاں میں ابھرتی ہوئی ہرپل آہٹ
کہہ رہی ہے مرے احساس سے آیا کوئی
٭٭٭
|