* کیا ہوائے شوق کی زد میں آکر لے گیا *
غزل
کیا ہوائے شوق کی زد میں آکر لے گیا
جسم شیشہ دارسے ریشم کی چادرلے گیا
پچھلی صدیوں کا اثاثہ ہی اٹھا کرلے گیا
تیز طوفاں بلادستار ہم سرلے گیا
مجھ سے چھٹ کر بھی وہ قیدبے پناہی میں رہا
میر اغم مجھ سے بچھڑ کر اس کو گھر گھرلے گیا
جس نے اس خاکے میں رنگ بے مثالی بھر دیا
ہاں وہی اک رنگ وہ لمحہ چرا کرلے گیا
کیا اچانک ایک بات ایسی کہی اس نے شکیب
دل پہ جو رکھا تھا اک بھاری سا پتھرلے گیا
٭٭٭
|