* مہدی کا پودا دیکھا تھا خوابوں کی ا *
غزل
مہدی کا پودا دیکھا تھا خوابوں کی انگنائی میں
جھڑ گئے شاخ کے سارے پتے لمحوں کی پروائی میں
عمر کی میزانوں میں اپنی ذات کو تول کے دیکھاہ ے
سب سے زیادہ میرا قرضہ، میری ہی رسوائی میں
آنکھوں میں بے نام تصور پہلوبہ پہلو جا گے رہے
صبح کو زردسا چہرہ دیکھا آئینے کی کائی میں
بہرے لمحے کیا جانیں کہ روحیں زندہ ہوتی ہیں
دفن ہیں آوازوں کی لاشیں دیواروں کی کھائی میں
جی میں آتا ہے کہ اچانک سانسیں روکوں، بت بن جائوں
جسم کے شیشے چٹخ رہے ہیں سانسوں کی پسپائی میں
٭٭٭
|