* صدائے گل فروشاں مجھ کو گھر جانے کو *
غزل
صدائے گل فروشاں مجھ کو گھر جانے کو کہتی ہے
نئی تتلی مگر اس گل پہ مر جانے کو کہتی ہے
کہ پلکوں نے سنہری ریت پر تصویر کھنچی ہے
وہ رنگوں کے سمندر میں اتر جانے کو کہتی ہے
میں اس فرمائش بے جاپہ اسکی چپ ہوں تم بولو
مجھے بھی دھوپ آنگن میں اتر جانے کو کہتی ہے
زمین معتبر پر حاشیئے کی یورشیں کیوں ہیں
ابھی بیٹھے کہاں تھے اب کدھر جانے کو کہتی ہے
بلائے جاں سمجھتی ہے مجھی کو زندگی میری
ہوا کی پالکی سے اب اتر جانے کو کہتی ہے
مجھے شمع فروزاں صاحب مجلس سمجھتی ہے
نواح شب سے مجھکو بھی گذر جانے کو کہتی ہے
*** |