* اس کی تشہیر کیا نرالی ہوئی *
غزل
اس کی تشہیر کیا نرالی ہوئی
ساری دیوار شہر کالی ہوئی
کیا لکھا ہے پڑھا نہیں جاتا
مجھ کو تحسیں ہوئی کہ گالی ہوئی
کتنا عریاں ہے روشنی کا بدن
نگہ شہر انفعالی ہوئی
رنگ ذہن عدونے ایسا بھرا
میری تصو یربے مثالی ہوئی
ختم ہوتے ہی چائے کی دعوت
پر تکلف نگاہ خالی ہوئی
فن کا آئینہ چکنا چور سہی
اس کی شہرت تو ہے اچھالی ہوئی
٭٭٭
|