* رات کی ساری سیاہی کو میں دھوجائوں *
غزل
رات کی ساری سیاہی کو میں دھوجائوں گا
سر کو رکھ کر سردیوان میں سوجائوں گا
اور بھی رنگ تری شام کا گہرا ہوگا
اپنے دامن کو جو اشکوں میں ڈبو جائوں گا
دھوپ آنگن میں اترکے تجھے ڈھونڈھے گی بہت
جب ترے شہر کی گلیوں میں کھوجائوں گا
موسم گل مرے مضمون کی نہ چوری کرلے
خط لکھوں گا تومیں حرفوں میں سموجائوں گا
تم جوہوگے تویہ تقریب غم دل ہوگی
بخدا پہلی ملاقات سا ہوجائوں گا
٭٭٭
|