* گھر جولوٹے تو ملے غیر کے سامانوں م *
غزل
گھر جولوٹے تو ملے غیر کے سامانوں میں
پھول کچھ چھوڑ کے آئے تھے جو گل دانوں میں
ہم پرندوں کی طرح دائمی بنجارے ہیں
شہر چھوٹے تو مقرر ہوئے ویرانوں میں
وہ بھی ہجرت کے تکلف سے بری ہونہ سکے
آئے کچھ لوگ جو کعبے سے صنم خانوں میں
ان کے چہروں کو نگاہوں سے قطع مت کیجئے
جن کی پہچان رہی آئینہ سامانوں میں
میری آمد پہ ہر اک آنکھ کو حیرانی ہے
وہ مجھے ڈھونڈھنے نکلے تھے بیابانوں میں
ہم بھی تقسیم ہوئے آپ بھی تقسیم ہوئے
دونوں منھ ڈھانپ کے روتے ہیں گریبانوں میں
دیکھئے کسیے؟ کہاں؟ کس کوسزا ملتی ہے
فیصلے لکھے ہیں منصف کے گریبانوں میں
٭٭٭
|