* راستے دشوار تھے لیکن سفر اچھا لگا *
غزل
راستے دشوار تھے لیکن سفر اچھا لگا
اس کے گھر آئے تویہ دیوار ودراچھا لگا
زندگی لوٹ آئی الٹے پائوں ماضی کی طرف
جاگتی آنکھوں کامنظر رات بھر اچھا لگا
کچھ پرندے پھر ہوا میںتیر نے کی ضد میں تھے
جب نکل آئے نئے کچھ بال وپراچھا لگا
ہردر ودیوار پر تصویر تو شائع ہوئی
ہر ورق پر منشی دل کا ہنر اچھا لگا
دیوڑھی پر اس سے ہم مل کربہت روئے شکیب
غم کے ملبے میں چھپا رخت سفر اچھا لگا
٭٭٭
|