* ہم رشتہ رہے ہیں مدت تک تہذیب کے رنگ *
غزل
ہم رشتہ رہے ہیں مدت تک تہذیب کے رنگیں جام سے ہم
گھبرائیں گے کیا کھیلے ہیں بہت اس گردش صبح وشام سے ہم
وہ رات جو آنے والی ہے وہ رات بہت ہی کالی ہے
لودھیرے لودھیرے تیز کرو، ڈرتے ہیں چراغ شام سے ہم
ویران حویلی روتی ہے دروازے ماتم کرتے ہیں
اس شہر کے ملبے کہتے ہیں وقف ہی نہ تھے انجام سے ہم
پھر وقت ہمیں پہنچانے گا تاریخ ہمیں دہرائے گی
بوسیدہ کتابوں میں ہوں گے کچھ چہرے لئے بے نام سے ہم
بازار قیادت میں گم تھے ناکام تماشابن بیٹھے
عجلت میں رہے سوچاہی نہیں آئے تھے یہاں کس کام سے ہم
صدیوں کے امانت دارہیں ہم اب ایسے میں ہجرت کیاکرتے
دراصل پریشاں خاطر ہیں اسلاف کے اس نیلام سے ہم
٭٭٭
|