* شکیب ایازوہ ہجرت کی شام ہوتی ہے *
غزل
شکیب ایازوہ ہجرت کی شام ہوتی ہے
کہ جب چراغ کی لوہمکلام ہوتی ہے
وہ تیرے گھرسے خرابے کو لوٹ آتی ہے
جوخوش بوعہد گذشتہ کے نام ہوتی ہے
وہ میرے شعر میں موجود ہے اسے پڑھئے
اسی پہ ساری عبارت تمام ہوتی ہے
نظر سے بوندجوٹپکے لبوں پہ تل جائے
بغیر اذن ملے تو حرام ہوتی ہے
ہر ایک بات پرآئی ہے ایک اس کے سوا
کہ جو بھی آپ کہیں میرے نام ہوتی ہے
کہاں پہ خیمہ ٔجاںنے پڑائو ڈالا ہے
کہاں پہ ٹھہرے ہوئے ہیں کہ شام ہوتی ہے
٭٭٭
|