* تو اگر انتظار میں ہوتا *
غزل
تو اگر انتظار میں ہوتا
سارا منظر شمار میں ہوتا
بند کلیاں بھی گفتگو کرتیں
بوٹا بوٹا قطار میں ہوتا
سبزے اٹھ اٹھ کے جھانکتے ہوتے
سارا نقشہ حصار میں ہوتا
دامن گل ہوا سے ہلتے بھی
شعلۂ جاں چنار میں ہوتا
تختہ گل پہ سر تلے ہوتے
کیا مزہ گیر ودار میں ہوتا
یہ تو میرے لہو کا سرقہ ہے
ورنہ پھر کیا بہار میں ہوتا
بے تعلق سا ہوگیا ورنہ
دل بھی کچھ کاروبار میں ہوتا
٭٭٭ |