* زمیں سخت تھی سائباں بھی نہ تھا *
غزل
زمیں سخت تھی سائباں بھی نہ تھا
مجھے سر چھپانا یہاں بھی نہ تھا
کتابیں جلیں اور ہم بجھ گئے
حویلی کے باہر دھواں بھی نہ تھا
چراغ ایک دہلیز پر رکھ گیا
وہی شخص جس کا گماں بھی نہ تھا
مگر شہر میں بات مشہور ہے
کوئی تیسرا درمیاں بھی نہ تھا
اسی شہر میں اک سرائے ملی
جہاں قریۂ دشمناں بھی نہ تھا
مگر ایک نائو ڈبوئی گئی
سنا ہے کہ دریاں رواں بھی نہ تھا
٭٭٭
|