* تمام عمر مسائل لئے سفر میں رہا *
غزل
تمام عمر مسائل لئے سفر میں رہا
کبھی نہ چین سے بیٹھا نہ اپنے گھر میں رہا
مرے قدم کو بڑی ٹھو کریں لگیں لیکن
ارادہ سخت تھا، رستہ مرے سفر میں رہا
کبھی پلٹ کے نہ دیکھا کہ کون چھوٹ گیا
مقابلے میں جو محشر تھا سو نظر میں رہا
عجیب طرز سے دامن نے بادبانی کی
مرے شعور سے دریا مرے ہنر میں رہا
مری نگاہ میں پیوست اک عمارت تھی
وہ مبتدا میں رہی اور میں خبر میں رہا
عجیب طرح انا تھی کوئی جھکا ہی نہیں
میں اپنے گھر میں رہا وہ بھی اپنے گھر میں رہا
کہ میری سانس میں خوش بو اسی کے نام کی ہے
اسی کا نام بہت دور تک سفر میں رہا
کہاں سے پہنچی کہاں تک دلوں کی گویائی
کہ بولتا ہوا آئینہ اس کے گھر میں رہا
عظیم آباد کی مٹی مری سرشت میں ہے
شکیب آیاز کہاں شہر بے ہنر میں رہا
٭٭٭
|