* بے آب وبے گیا ہ ہوا اس کو چھوڑ کر *
غزل
بے آب وبے گیا ہ ہوا اس کو چھوڑ کر
کیسے بجھائوں پیاس میں پتھر نچوڑ کر
وہ بھی عجیب شام تھی جن ساعتوں کے بیچ
میں بھی بکھر بکھر گیا شیشے کو توڑ کر
میں گھر گیا ہوں رنگ سفید وسیاہ میں
وہ خوش ہے زعفران کی اک شاخ توڑ کر
کچھ اور تیز ہوگئی اندر کی روشنی
اک پل بھی مل سکا نہ سکوں آنکھ پھوڑ کر
اب تک تو شعر گوئی پہ قانع رہا، مگر
تو بھی شکیب ایاز کوئی توڑ جوڑ کر
٭٭٭
|