* خواب خوں بستہ سے کل رات ہی پٹکا ہے ل *
غزل
خواب خوں بستہ سے کل رات ہی پٹکا ہے لہو
بنت خورشید کا مجروح بدن ہولے چھو
میں نے چاہا تھا کہ آئینے میں خود کو دیکھوں
میری بینائی چرالے گئے میرے آنسو
میں نئے دورکا اک نقطۂ مایوسی ہوں
آرہی ہے مری ہرسانس سے کافور کی بو
سلوٹیں روتی ہیں بستر کی گلے مل مل کر
کون اڑالے گیا اس تازہ بدن کی خوش بو
تاج داروں کی ہتھیلی میں لگی ہے مہندی
جب بھی لمحوں نے نچوڑا ہے مرا تازہ لہو
٭٭٭
|