* موم کی طرح شب ہجر میں ڈھل جائوگے *
غزل
موم کی طرح شب ہجر میں ڈھل جائوگے
قریۂ جاں سے جو نکلو گے تو پچتائو گے
تم سے یہ دھوپ کڑے وقت کا جزیہ لے گی
اب جہاں بھی پس دیوار جگہ پائو گے
میں کنارہ ہوں، مجھے ناز ہے یک سمتی پر
تم سمندر ہو جو بکھروگے تو پچتائو گے
آہنی شہر کی زنجیر بڑی بھاری ہے
اب تو گائوں میں پلٹ کر نہ کبھی آئوگے
بیر کا پیڑ، وہ کھڑکی، وہ پڑوسی کا مکان
کس طرح ذہن کی تحریر مٹاپائوگے
بھیڑ اتنی ہے کہ خود اپنا سفر بھاری ہے
مجھ کو ڈھونڈ ھو گے تو ہلکان ہی ہوجائو گے
٭٭٭
|