* فصیل شہرپہ دستارکس فقیر کی ہے *
غزل
فصیل شہرپہ دستارکس فقیر کی ہے
کہ پرسکون بڑی مملکت امیر کی ہے
پہرڈھلے یہاں ہوتی ہے زمزمہ خوانی
چمن کے فرش پہ آمد کسی صفیر کی ہے
اسی سے پوچھے ٔ کیوں انتساب اس نے کیا
مری جبیں پہ جو تحریر اس کے تیرکی ہے
حصار نام تو ٹوٹے کہ ہم بھی دیکھ سکیں
کہ اپنے پائوں میں زنجیر کس اسیر کی ہے
کف سبب پہ ٹکی ہے نگاہ گردوں کی
ستارہ جوکی ہے سازش کہ اس لکیرکی ہے
شکیب ایاز!یہ دلی کی جامع مسجدہے
پکارتی ہے جو سیڑھی جناب میرکی ہے
٭٭٭
|