* جو ہو بے سایہ وہ پیکر رکھ لیں *
غزل
جو ہو بے سایہ وہ پیکر رکھ لیں
پھر قدم گھر سے بھی باہر رکھ لیں
تنگ ہے ہم یہ صحرائے وجود
کس جگہ جائیں کہ بستر رکھ لیں
اس کو جھٹلائیں سر مجلس ہم
آنکھ میں شام کا منظر رکھ لیں
اس کے چہرے کا تماشہ دیکھیں
تاج میں سرخ گل تر رکھ لیں
تاکہ پہچان لے پیاسے کو بھی پیاس
آج مٹھی میں سمندر رکھ لیں
سر اجلاس گواہی ہوگی
نام لکھ کر تہہ خنجر رکھ لیں
سچ کا زہر اب پئیں، جھوٹ لکھیں
حرف اظہار پہ پتھر رکھ لیں
٭٭٭
|