* ذرا کہو تو سہی کو ئے یار کیسا ہے *
غزل
ذرا کہو تو سہی کو ئے یار کیسا ہے
مزاج شہر کا سرحد کے پار کیسا ہے
لکھا ہے خط میں ہوا تیز تیز چلتی ہے
زمیں کے سینے میں گردو غبار کیسا ہے
وہاں شریعت رحمت پہ کیا گزرتی ہے
یہاں جو بیتی ہے اس کا شمار کیسا ہے
وہاں بھی سانس رکی ہے کبھی کبھی کہ نہیں
دل ونظرکا وہاں کاروبار کیسا ہے
کہ بات بات پہ ہے سرمہ در گلوکہ نہیں
یہاں کا مرحلہ گیر و دار کیسا ہے
یہاں فضا میں نمی ہے کہ خشک ہے موسم
سواد گردش لیل ونہار کیسا ہے
ہمارے چہرے پہ کوئی خراش ہے کہ نہیں
تمہارے دل میں خط سوگوار کیسا ہے
کہ ہم تو زرد ہتھیلی پہ ہیں چراغ لئے
ہوا ہے تیز مگر اعتبار کیسا ہے
٭٭٭
|