* فقیر ومست کا دنیا میں اب ٹھکانہ کی *
غزل
فقیر ومست کا دنیا میں اب ٹھکانہ کیا
سرائے ملک ستم کیا، وزیر خانہ کیا
کہ اس ملازم گردوں کو اب کہاں فرصت
ذلیل مجھ کو کرے گا بھلا زمانہ کیا
سوار ہم ہیں کجاوے میں، سوچنا کیا
ہم اپنے شہر کو ملبے میں ڈھونڈ نے نکلے
کسی شمار میں ہوگا غریب خانہ کیا
ڈھلی ہے شام کہ آراستہ قطاریں ہیں
پرند جانے لگے سوئے آشیانہ کیا
کہیں پہ بیٹھ ہی رہنا ہے جب شکیب ایاز
زمیں کا فرش کیا، بادل کا شامیانہ کیا
٭٭٭
|