* پردے بھی دریچے کے برابر نہیں آتے *
غزل
پردے بھی دریچے کے برابر نہیں آتے
مطلع پہ وہ چہرے بھی مکرر نہیں آتے
شاید کہ مرے شہر میں کچھ بات ہوئی ہے
اب چھت کی منڈیروں پہ کبوتر نہیں آتے
حالاں کہ مقابلہ میں مرے دھوپ کھڑی ہے
سائے بھی مگر قد کے برابر نہیں آتے
بازار قیادت میں بڑی دھوم ہے اس کی
ٹھوکر میں مری راہ کے پتھر نہیں آتے
نظارہ تہذیب جنوں دیکھ بھی لیجے
دردر نہیں پھرتے کبھی گھر گھر نہیں آتے
جب رن میں اٹھا لیتے ہیں سراہل قیامت
اس سرکے مقابل کبھی پتھر نہیں آتے
بہتر ہے کہ دروازہ لگا لیجئے صاحب
یہ ٹھیک ہے طوفان برابر نہیں آتے
٭٭٭
|