* فصل گل آئی ہے زنجیر ہلا نے کیلئے *
غزل
فصل گل آئی ہے زنجیر ہلا نے کیلئے
گڑپڑی پائوں پھر ہم کو منانے کیلئے
تم کو تجدید ملاقات پہ اصرار رہا
اور برے بن گئے ہم سارے زمانے کیلئے
ہم کو کرنا ہی پڑا ترک تعلق تم سے
ان کو ہنسے کیلئے تم کو رلانے کیلئے
میری زنجیر کے بل آج نہ کل ٹوٹیں گے
آپ تیار رہیں ناز اٹھانے کیلئے
ہر نظر بار سنبھالے تری آرائش کا
یہ تو ممکن ہی نہیں آئینہ خانے کیلئے
قریۂ شوق میں رنگوں کی پھواریں برسیں
آپ خوش بوکی طرح آتے ہیں جانے کیلئے
عہد گم نام کی تاریخ ادب تو لکھئے
میری خاطر نہ سہی اگلے زمانے کیلئے
٭٭٭
|