* کیا زمانہ تھا کہ اپنا بھی کبھی گھر *
غزل
کیا زمانہ تھا کہ اپنا بھی کبھی گھر گھر تھا
اونچی دیوار تھی برجی کے برابر گھر تھا
دیوڑھی کے کبھی پردے نہ ہوائوں سے اٹھے
باوجود اس کے اک راہ گذر پر گھرتھا
فاختہ چھت کی منڈیروں پہ اتر آتی تھی
رخنہ انداز شرارت نہ تھی ششدر گھر تھا
جب بھی پلکوں سے کبھی چھوٹ کے گرتے تھے گہر
رول لیتی تھی کھلائی وہ تونگر گھر تھا
ایک چہرہ تھا جو آنکھوں میں مری بولتا تھا
کیسی ممتا میں حلاوت تھی کہ ششدر گھر تھا
کیسا سناٹا ہے کیا دین کی نیلامی ہے
ہائے وہ لوگ بھی کیا تھے کہ خدا گھر گھر تھا
٭٭٭
|