* یہ کاروبار مرے دل نے انتخاب کیا *
غزل
یہ کاروبار مرے دل نے انتخاب کیا
جبین حرف پہ لکھ کر اسے کتاب کیا
شباہتیں جو مرے ذہن نے بنائی تھیں
انہیں اتار کے کا غذپہ لا جواب کیا
سکون چھین لیا استعارہ سازی نے
تلاش دہر میں نکلے توجی خراب کیا
وہ ڈھونڈہتا رہا مجھکو جہاں معنی میں
وہ میں ہی تھاکہ جسے میں نے دستیاب کیا
مری نظرکہ جھکی اس کے چہرہ نوپر
عرق عرق ہوا موسم، اسے گلاب کیا
ابھی تو ساری کہانی ہے درمیان سخن
کہ میں نے خو دبھی کہاں اپنا احتساب کیا
٭٭٭
|