* مرے وجود پہ پتھرائو ہونے والا ہے *
غزل
مرے وجود پہ پتھرائو ہونے والا ہے
یہ شہر اب کسی ملبے میں سونے والاہ ے
خموش رات ہے بچوں نے کی یہ سرگوشی
چلو ادھر کو جدھر کچھ نہ ہونے والا ہے
بسر کریں گے کرائے کے شامیانے میں
مرا مکان مری لاش بونے والا ہے
نشانہ اس کا تو انگشت لاالہٰ پہ ہے
وہ ایک تیر جو مجھ کو چبھونے والا ہے
بہت ہی تنگ ہے اس سر زمین کا دامن
سنا ہے شہر کا درویش رونے والا ہے
سنک رہی ہے گرانی عدوکے چہرے کی
وہ اک نگینے میں موتی پرونے والاہے
فضا میں نور کی بارش ہے گھپ اندھیرے میں
شکیب ایاز کوئی شعر ہونے والاہے
٭٭٭
|