* نہ کیوں ہم اپنی زبان کو کتاب میں رک *
غزل
نہ کیوں ہم اپنی زبان کو کتاب میں رکھ دیں
جو پڑھ سکا نہ کوئی وہ نصاب میں رکھ دیں
رئیس شہر کو ناراض کرکے ہم دیکھیں
ہم اپنی نیند ذرا اس کے خواب میں رکھ دیں
صبا سے کھیلیں یہ اٹھکھیلیاں ذرا ہم بھی
ہوا کے سامنے شبنم گلاب میں رکھ دیں
کہ وہ بھی دیکھیں فرش کی اڑان کیسی ہے
ہزار ترک ہو، پائوں رکاب میں رکھ دیں
کہیں بھی کچھ ہو تویہ اہتمام کر دیکھیں
وقوع شہر کوخانہ خراب میں رکھ دیں
عجیب شور ہے برپا دیار کوفہ میں
کترکے سائیہ دنیا، حجاب میں رکھ دیں
٭٭٭
|