* زندگی کا مہیب سنا ٹا *
غزل
زندگی کا مہیب سنا ٹا
میرا تنہا رقیب سناٹا
کیا ہوا حادثہ کہ سڑکوں پر
چھا گیا ہے عجیب سناٹا
چھپ کے بیٹھا ہے سہما سہما سا
شور وغل کے قریب سناٹا
اس حویلی کے در سے لپٹا ہوا
رو رہا ہے مہیب سناٹا
شب ڈھلے شہر کی دکانوں پر
بک رہا ہے غریب سناٹا
چہرۂ شب کی سلوٹوں میں ایاز
دفن ہے بدنصیب سناٹا
٭٭٭
|