* جلتے ہوئے مکان کا منظرعجیب تھا *
غزل
جلتے ہوئے مکان کا منظرعجیب تھا
دیوار ودرکھلے تھے تماشہ غریب تھا
آنگن میں پھیلے سیاہ لہو کے خطوط تھے
البم کاچہرہ زیر نگاہِ رقیب تھا
کچھ ادھ جلی کتابیں تھیں الماریوں میں بند
الفاظ بے صدا کو تکلم نصیب تھا
ملبے میں سرچھپائے ہوئے سربلند تھے
بے چہرہ جسم، خوں چکاں دست حبیب تھا
چیخوں کے اژدھام میں گم ہوگئے تھے سب
اخبار بے حروف تھے، چہرہ نقیب تھا
چنگاریاں نکلتی تھیں پتھر کی آنکھ سے
کشتی تھی دور اور سمندر قریب تھا
کس شہر بے چراغ میں آنکھیں ٹکی رہیں
تو بھی شکیب ایاز بڑا بدنصیب تھا
٭٭٭
|