* میں کہ ٹھہرا ہوں اسی گردش پائندہ پ *
غزل
میں کہ ٹھہرا ہوں اسی گردش پائندہ پر
حرف امروز لکھا پرچہ آئندہ پر
جمع ہیں طرف نظر شہر گذشتہ کے مکیں
بحث جاری ہے یہاں خلقت آئندہ پر
منحرف کوئی تو ہو اس کا مثال گردوں
جس نے بھی ضرب لگائی صف آئندہ پر
کس طرف جانے کوہے دیکھیں جلوس مہلک
اس کو لوٹانہ دیں کیوں حالت آئندہ پر
میں دکان جہاں نادیدہ میں بکنے کا نہیں
نام لکھا ہے مرا گوہر پائندہ پر
٭٭٭
|