* اندھیرے میں اک جگمگاہٹ سی ہے *
غزل
اندھیرے میں اک جگمگاہٹ سی ہے
چراغوں میں کیوں کپکپاہٹ سی ہے
مجھے قرب سے وہ بلا تا ہے کیا
مرے درپہ کیوں اس کی آہٹ سی ہے
وہی تو نہیں ہے وہی تو نہیں
مرے دل میں کچھ کپکپاٹ سی ہے
ہوائوں کی ٹہنی پہ تتلی کا رقص
چمن میں عجیب گنگناہٹ سی ہے
ہوا بن کے آئی، مجھے چھو گئی
بدن میں بہت سنساہٹ سی ہے
تری رہ میں خمار مغیلاں نہیں
مگر پائوں میں سلسلاہٹ سی ہے
طلسمات کی تو پری تو نہیں
ترے بول میں رسمساہٹ سی ہے
نئی شاعری ہے شکیب ایاز
غزل میں عجیب جگمگاہٹ سی ہے
٭٭٭
|