* جانے کیوں فقرکے رستے مرے گھر تک آئ *
غزل
جانے کیوں فقرکے رستے مرے گھر تک آئے
ان کو جانا تو وہ میزان گہر تک آئے
کوئے دمساز سے نکلے تو نگوں سرنہ ہوئے
واں سے لوٹے تھے جو پتھر، مرے گھر تک آئے
کتنے پتوں نے ہوائوں سے لڑی جنگ ہنر
کتنی مشکل سے ثمران کے شجر تک آئے
کتنے بے ساختہ آنسو تھے کف رنجش میں
کتنے رومال صبا، دیدہ تر تک آئے
کس سے معلوم کریں شعبدۂ جاں کیا ہے
کتنے منظر تھے جو اس قید نظر تک آئے
چومنے کس کے قدم گردش زنجیر آئی
اور ہم محض یاں رسم سفر تک آئے
٭٭٭
|