* اک اذیت ناک منظر عمر بھر رہنے دیا *
غزل
اک اذیت ناک منظر عمر بھر رہنے دیا
گھر جلایا اس نے سب کا میرا گھر رہنے دیا
بادبان یاد کی تازہ ہوا آنے تو دو
ہم نے دریا میں بھی اک پانی کاگھر رہنے دیا
لوٹ کر آئیں گے اک دن اس کی پرشش کیلئے
اُس کے دروازے پہ سامان سفر رہنے دیا
چھوڑ آئے مجھ کو وہ ویرانۂ جاں میں کہیں
اپنی تمثیلات تاحد نظر رہنے دیا
کیسی آزادی ملی ہے عمر بھر کے واسطے
میرے ہی پائوں میں زنجیر سفر رہنے دیا
٭٭٭
|