* جینے کا سامان بہت ہے *
غزل
جینے کا سامان بہت ہے
یہ دنیا نادان بہت ہے
پیچھے ندی ٹوٹ گئی ہے
اور آگے طوفان بہت ہے
آنکھ تو سب کچھ دیکھ رہی ہے
دل لیکن انجان بہت ہے
جینے میں سارے ہیں جھمیلے
مرجانا آسان بہت ہے
لفظوں میں میرا چہرہ ہے
اتنی سی پہچان بہت ہے
برف پہ سرخ سے چھینٹے کیوں ہیں
موسم کیوں ہلکان بہت ہے
راسخ تیرے شہر کے ہم ہیں
اتنی سی پہچان بہت ہے
٭٭٭
|