* کچھ ایسے لوگ مرے تجربے میں آتے ہیں *
غزل
کچھ ایسے لوگ مرے تجربے میں آتے ہیں
کہ اس کے بعد ہم دنیا کو بھول جاتے ہیں
شریر بچے مرے گھر میں جب بھی آتے ہیں
پس ورق نئی تصویر وہ بناتے ہیں
ابھی بھی میرے تصرف میں کچھ کھلونے ہیں
فضائے شب میں گھر وندے نئے سجاتے ہیں
زبان گنگ، نظر بولتی نہیں کچھ بھی
غرض جناب کہ یہ بھی مقام آتے ہیں
زمیں پہ ٹو ٹ کے کہرے کے پھول گرتے ہیں
سفید آ گ میں ہم انگلیاں جلاتے ہیں
کسی نے دیکھاہے پانی میں آگ لگتے ہوئے
شکیب ایاز اسی مرحلے میں آتے ہیں
٭٭٭
|