* جلا کر اپنے گھر کو روشنی کے خواب کی *
غزل
جلا کر اپنے گھر کو روشنی کے خواب کیا دیکھیں
دھوئیں کے بادلوں میں رات بھر مہتاب کیا دیکھیں
طلسم جاں بھی کیاہے ایک دھوکا ہے بصارت کا
تو جھوٹی آنکھ سے سچے دنوں کے خواب کیا دیکھیں
مرے پیراہن ہستی پہ گردنا مرادی ہے
کہاں پر چھوڑ آئے ہیں بھلا احباب کیا دیکھیں
کسی دریائے بے پایاں میں اتریں، ڈوب جائیں ہم
یہ آب جوہے اس میں گردش سیلاب کیا دیکھیں
ہمیں تو منزل راہ مقرر تک پہنچنا ہے
کدھر کو چھوڑ آئے راہ میں اسباب، کیا دیکھیں
٭٭٭
|