* نقوش دہر میں تیرے سوا تو کچھ بھی نہ *
غزل
نقوش دہر میں تیرے سوا تو کچھ بھی نہیں
کہ ترے بعد یہاں پھر ہوا تو کچھ بھی نہیں
اب اس گمان پہ پہنچے ہوئے مدبر ہیں
ہوا تو کچھ تو ہوا، نہ ہوا تو کچھ بھی نہیں
بہت تھا شور کہ وہ ایک سرخریدیں گے
جو درمیان سے پردا اٹھا تو کچھ بھی نہیں
یہی تو حال ہے دنیا کا اب شکیب ایاز
رہا تو خوب ہے وہ، مرگیا تو کچھ بھی نہیں
٭٭٭
|