* انہیں کے سامنے ہم شکوۂ بیداد کرتے *
انہیں کے سامنے ہم شکوۂ بیداد کرتے ہیں
جو روز اک اک نیا طرزِ ستم ایجاد کرتے ہیں
اسیروں پر کرم یوں آج کل صیاد کرتے ہیں
کتر دیتے ہیں پر جب قید سے آزاد کرتے ہیں
بلا سے اُنکے وعدے بعد میں جھوٹے ہی ثابت ہوں
یہ کیا کم ہے کہ تسکینِ دلِ ناشاد کرتے ہیں
خلش ، آلام ، فرقت ، درد ، سوزش ، اضطراب و غم
ہمارا خانۂ دل اب یہی آباد کرتے ہیں
وہی ہوتے ہیں فاتح زندگانی کے محاذوں پر
جو اپنے بازوئوں کو بازوئے فولاد کرتے ہیں
جواں بیٹے ہمارے ہیں خدا کا شکر ہے صابرؔ
ہمارا کام اب سجّادؔ اور شمشادؔ کرتے ہیں
*************** |