* دردِ دل باقی رہے دردِ جگر باقی رہے *
دردِ دل باقی رہے دردِ جگر باقی رہے
آدمی میں آدمیت کا اثر باقی رہے
خشک تنکوں سے نشیمن مت بنایا کیجئے
جب تلک اندیشۂ برق وشرر باقی رہے
زندگی کی راہ میں اِس طرح چلنا چاہئے
کچھ سفر ہو جائے طے ، تھوڑا سفر باقی رہے
آپ کو بھی دعوتِ نظّارہ دے گی صبح و شام
شرط یہ ہے آپ کا ذوقِ نظر باقی رہے
حق نوائی کا اگر رکھتا ہے دل میں حوصلہ
پھر یہ مت کر آرزو کاندھے پہ سر باقی رہے
ہے ہمارے گھر کی زینت دونوں عشرتؔ ، شادماںؔ
اُن سے صابرؔ رونقِ شام و سحر باقی رہے
(مقطع میں بہوؤں کا ذکر ہے)
************** |