* چلو کچھ اور ذرا دور چل کے دیکھتے ہی *
چلو کچھ اور ذرا دور چل کے دیکھتے ہیں
حدِ نگاہ سے آگے نکل کے دیکھتے ہیں
بہت دنوں تک اجالوں کا زہر پیتے رہے
چلو ہم آج اندھیرے نگل کے دیکھتے ہیں
کھڑے ہیں کتنے مکان سطحِ آب سے اونچے
ہمارے شہر کے دریا ابل کے دیکھتے ہیں
برا جو وقت پڑا تو یہ ہم نے دیکھ لیا
کہ اپنے لوگ بھی تیور بدل کے دیکھتے ہیں
نہ بھائی بھائی میں الفت ، نہ باپ بیٹے میں
عجیب حال یہ ہم آجکل کے دیکھتے ہیں
ہیں پیارے سنبلؔ و عینانؔ و طوبیٰؔ اتنے ہمیں
کہ روز صبح انہیں آنکھ مل کے دیکھتے ہیں
دکھائی دیتیں نہیں اُن کو خوبیاں صابرؔ
جو لوگ عیب ہماری غزل کے دیکھتے ہیں
(آخری شعر میں پوتے پوتی کا ذکر ہے)
****************** |