* اُسی کو سارا زمانہ سلام کرتا تھا *
اُسی کو سارا زمانہ سلام کرتا تھا
جسے عروج کا سایہ سلام کرتا تھا
سلام اُس کو اندھیرے بھی اب نہیںکرتے
کہ جس کو روز اُجالا سلام کرتا تھا
اب ایسے پیاسے جہاں میںکبھی نہ آئیں گے
کہ جن کی پیاس کو دریا سلام کرتا تھا
اُسی دیار سے تہذیب ہم نے سیکھی ہے
جہاں غلام کو آقا سلام کرتا تھا
ہمارے گائوں کے مکتب نے دی تھی یہ تعلیم
کہ اپنے باپ کو بیٹا سلام کرتا تھا
دکھائی دیتے نہیں ا ب وہ کارواں صابرؔ
کہ جن کے عزم کو رستہ سلام کرتا تھا
***************************** |