* وہ زندگی سے کبھی دُور ہم کو کردے گا *
وہ زندگی سے کبھی دُور ہم کو کردے گا
کبھی وہ جینے پہ مجبور ہم کو کردے گا
چراغِ شام بناکر جلائے گا ہم کو
بوقتِ صبح وہ بے نور ہم کو کردے گا
کبھی خوشی کا نہ کرپائیں گے ہم استقبال
وہ ہر خوشی سے بہت دُور ہم کو کردے گا
گرائے گا کبھی ہم کو جہاں کی نظروں سے
کبھی اُچھال کے مغرور ہم کو کردے گا
بنائے گا نئے دار و رسن ہمارے لئے
کہ جب وہ باغیٔ دستور ہم کو کردے گا
ہم اُس کے ظلم و ستم سارے بھول جائیں گے
وہ اِس قدر کبھی مسرُور ہم کو کردے گا
خطاب بخش کے دہشت پسند کا صابرؔ
زمانے بھر میں وہ مشہور ہم کو کردے گا
********************************* |