* کوئی گوشہ ہو اُجاگر نور کا *
کوئی گوشہ ہو اُجاگر نور کا
گُھٹ رہا ہے دم شبِ دیجور کا
آگئی دنیا مشینی دَور میں
ہاتھ خالی ہوگیا مزدور کا
ہم کہانی سنتے ہیں دُرویش کی
مت سنا قصّہ ہمیں تیمور کا
نفرتوں کی آگ بھڑکائی گئی
آدمی ایندھن بنا تنّور کا
کتنی سچی بات لوگوں نے کہی
ڈھول لگتا ہے سہانا دُور کا
جب بھی ہوگی حضرتِ موسیٰ کی بات
تذکرہ ہوگا چراغِ طور کا
شور سے پھٹ جائیں گے ارض و سما
جب دھماکہ ہوگا صابرؔ صور کا
************************** |