* دیکھا اُسے جس دم تو یونہی میں نہ ڈر *
دیکھا اُسے جس دم تو یونہی میں نہ ڈرا تھا
تھا گرچہ نہتّا وہ مگر زہر بھرا تھا
کچھ سرپھرے لوگ اُس کی جڑیں کاٹ رہے تھے
شاخیں بھی ثمر دار تھیں اور پیڑ ہرا تھا
بدلے میں جو دی آپ نے وہ چیز تھی کھوٹی
سکّہ جو دیا آپ کو میں نے وہ کھرا تھا
کرتا تھا ثنا خوانی اُجالوں کی جو دن میں
راتوں میں اندھیروں کا وہی مدح سرا تھا
منصف نے سنائی تھی سزا موت کی اُس کو
حالانکہ وہ پہلے بھی کئی بار مرَا تھا
ڈولی اُٹھی بیٹی کی تو کچھ سانس ذرا لی
صابرؔ مرے سر فرض کا اک بوجھ دھرا تھا
*************************** |