* اُنہیں ممتا نے آنچل میں بڑے نازوں *
اُنہیں ممتا نے آنچل میں بڑے نازوں سے پالا تھا
ستم گاروں نے جن بچوّں کو نیزے پر اچھالا تھا
ہمارے شہر میں جو کھیلتے تھے خون کی ہولی
تشدّد کی سیاست میں اُنہیں کا بول بالا تھا
دکھائی دے رہے تھے وہ ہمیں اجلے لباسوں میں
مگر اعمال تھے اُن کے سیہ اور دل بھی کالا تھا
اگر بس اُس کا چلتا تو اُسے بھی چھین لیتا وہ
مرے منہ میں جو محنت کی کمائی کا نوالا تھا
ہمارے شہر میں آئی تھی اب کے ایسی دیوالی
کسی کا گھر اندھیرا تھا ، کسی گھر میں اجالا تھا
مری آنکھوں میں آنسو اور ہنسی تھی اُس کے چہرے پر
بھری محفل سے جب صابرؔ مجھے اُس نے نکالا تھا
******************** |