* ہمارا ہم نشیں جو بد گماں ہونے سے پہ *
ہمارا ہم نشیں جو بد گماں ہونے سے پہلے تھا
وہ ہم پر مہرباں نامہرباں ہونے سے پہلے تھا
سنا کر گھٹ گئی توقیر میرے قصۂ دل کی
بڑا دلچسپ یہ قصہّ بیاں ہونے سے پہلے تھا
معطّر کررہا تھا گلستاں کو اپنی خوشبوسے
تر و تازہ جو گل نذرِ خزاں ہونے سے پہلے تھا
ملا جب کارواں سے بن گیا ہے کارواں وہ بھی
اکیلا جو شریکِ کارواں ہونے سے پہلے تھا
عقیدت کی جبیں سائی نے بخشی ہے جسے عظمت
وہ سنگِ راہ سنگِ آستاں ہونے سے پہلے تھا
مجھے بے چین کر رکھا ہے میری آہ و زاری نے
میں غم سے مطمئن محوِ فغاں ہونے سے پہلے تھا
سمندر بن کے اتراتا ہے جو برسات کا پانی
وہ قطرہ قطرہ بحرِ بیکراں ہونے سے پہلے تھا
چمکتا تھا مشقت کا پسینہ میرے ماتھے پر
توانا میں بھی صابرؔ ناتواں ہونے سے پہلے تھا
************************************* |